Social Icons

Sunday 1 September 2013

CM KP RAID ON POLICE STATION


خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویزخٹک اتوارکے روزبغیراطلاع دیے پشاورشہرکے تھانہ بھانہ ماڑی پہنچ گئے ۔وزیراعلیٰ جب پہنچے توتھانے میں ایس ایچ او ،محرراوردیگرسٹاف غیرحاضرتھا۔تھانے میں داخل ہوتے ہی وزیراعلیٰ نے حوالات میں بند ایک معمرشخص سے ملاقا
ت کی جسے لین دین کے معاملے میں تھانے میں بند کیاگیاتھا۔وزیراعلیٰ نے مذکورہ شخص سے بات چیت کرنے کے بعداس کی ضمانت کیلئے احکامات جاری کیے ۔وزیراعلیٰ نے ایس ایچ اوکومعطل کرنے اورمحررکے خلاف انکوائری کے احکامات جاری کیے ۔ایس ایچ او چھٹی پرتھالیکن تھانے میں اس کاکوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔انہوں نے علاقے کے ایس پی اسماعیل کوہدایت کی کہ وہ روایتی تھانہ کلچرکوختم کرے، لوگوں کے ساتھ انصاف کرے اورکسی کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے ۔انہوں نے کہاکہ وہ تسلسل کے ساتھ اپنے پولیس سٹیشنوں کی انسپیکشن کریں ۔یادرہے کہ اس سے پہلے وزیراعلیٰ نے آج ایک پُرہجوم پریس کانفرنس کے دوران واضح کردیاتھاکہ وہ اب دفترمیں کم نظرآئیں گے اورمختلف جگہوں پربغیراطلاع کے چھاپے کریں گے تاکہ عوام کے مسائل حل کیے جاسکیں۔

تھانہ بھانہ ماڑی کے دورے کے موقع پر پولیس حکام نے وزیراعلیٰ پرویزخٹک کوپولیس کے مسائل سے آگاہ کیا۔پولیس افسران نے وزیراعلیٰ کوبتایاکہ بعض اوقات وہ لوگ جوظلم وزیادتی کاشکارہوتے ہیں وہ مقدمہ درج کرانے سے گریزکرتے ہیں حالانکہ پولیس ان کی مددکرناچاہتی ہے جس کے جواب میں وزیراعلیٰ نے انہیں کہاکہ مسئلہ پولیس اورعوام کے درمیان اعتمادکے فقدان کاہے ۔جب یہ اعتمادقائم ہوجائے گاعوام بھی پولیس کواپناساتھی اورمحافظ سمجھیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت پولیس کوہرقسم کی سہولیات فراہم کرے گی اورقانون پرعملدرآمدکرنے والے افسران اوراہلکاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی ۔انہوں نے کہاکہ پولیس کوعوام کوتحفظ فراہم کرنے کے سا تھ ساتھ ان کے دل بھی جیتنے چاہئیں تاہم قانون شکن عناصرکے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں کی جانی چاہئیے۔وزیراعلیٰ نے تھانے کے دورے کے موقع پرایک ایک دستاویزکاتفصیلی معائینہ کیا۔پولیس کے رجسٹرچیک کیے اوراہلکاروں سے درجنوں سوالات کیے۔

اتوارکی شام پولیس اہلکاروں اورافسران کیلئے وزیراعلیٰ پرویزخٹک کو مطمئن کرناانتہائی دشوارثابت ہوا کیونکہ وزیراعلیٰ کے چُبتے ہوئے سوالات نے کئی اہلکاروں کوپریشان کردیا۔وزیراعلیٰ ہرمعاملے میں باخبراورایک قدم آگے تھے۔

Facebook Comment